٭٭معاشی نظام٭٭

Share on facebook
شیئر کریں
Share on twitter
شیئر کریں
Share on whatsapp
شیئر کریں

٭۔سودی نظام کو بتدریج مکمل طورپر ختم کر دیا جائے گا ۔

٭۔پاکستان کو اس وقت بڑے تجارتی خسارے کا سامنا ہے اور ہمارے زرِمبا دلہ کے ذخائر مستحکم نہیں ہیں۔اس کے حل کے لئے ہنگامی، شارٹ ٹرم،میڈیم ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کے تحت کام کیا جائے گا۔ اور انشاااللہ یہ مسئلہ مکمل طور پر حل کیا جائے گا۔

٭۔ ملکی معیشت کی بنیاد زراعت پر رکھی جائے گی۔

٭۔ زراعت کے فروغ اور ترقی کے لیے ہنگامی طور پر کام کیا جائے گا۔

٭۔ جدید زرعی ٹیکنالوجی اور جدید زرعی اجناس کے بیج جو زیادہ پیداوار دیتے ہیں وہ کسانوں کو فراہم کیے جائیں گے۔

٭۔زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور دیگر ادارے جہاں زرعی تحقیق کا کام ہوتا تھا انہیں دوبارہ فعال بنایا جائے گا۔

٭۔فوری ہر ممکن اقدام کیے جائیں گے کہ اجناس کی اوسط پیداوار میں جلد از جلد اضافہ ممکن بنایا جا سکے۔

٭۔ کسانوں کی بہتری کےلئے ہر کام کیا جائے گا۔ ایسا نطام وضع کیا جائے گا کہ کسان کو اپنی محنت کا زیادہ سے زیادہ منافع ملے۔ نا کہ مل مالکان یا آڑھتی کسان کا حق کھاتے رہیں۔

٭۔ زراعت سے وابستہ صنعتوں کی تنصیب کے لئے خصوصی مراعات دی جائیں گی۔

٭۔زراعت سے وابستہ چھوٹی صنعتوں کے قیام کے لئے کسانوں کے بچوں کو حکومت کی طرف سے قرض سمیت تمام سہولیات دی جائیں گی۔

٭۔ ملک گیر زرعی اصلاحات نافذ کی جائیں گی۔

٭۔زرعی اصلاحات کا مطلب بہت وسیع ہے فی الحال اسکی اتنی ہی تشریح کافی ہے۔

٭۔ آبی وسائل کو مکمل طور پر استعمال کیا جائے گا۔اور مکمل کوشش ہو گی کہ آبی وسائل کا ضیاع نہ ہو۔

٭۔تمام آبی وسائل کو بروئے کار لانے کے لئے ہنگامی اقدامات کیے جائیں گے۔اور بھارتی آبی جارحیت کا موثئر سدباب کیا جائے گا۔

٭۔ جدید آب پاشی سے کسانوں کو روشناس کروایا جائے گا تا کہ آبی وسائل کو مکمل طور پر استعمال کیا جا سکے۔

٭۔شہری و دیہی استعمال شدہ پانی کو فلٹریشن کے بعد زراعت کے لئے دوبارہ استعمال کیا جائے گا۔

٭۔انشااللہ تمام غیر آباد زمین کو قابلِ کاشت بنایا جائے گا۔

٭۔آباد زمین کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لئے ہر ممکن اقدام کیےجائیں گے۔

٭۔ اللہ پاک نے وطنِ عزیز کو تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ پاکستان میں وہ علاقے جہاں سورج مکھی یا دیگر خوردنی تیل پیدا کرنے والی فصلوں کی کاشت ممکن ہے وہاں کاشتکاروں کو اس حوالے سے خصوصی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ تاکہ خوردنی تیل کی درآمد سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔

٭۔اس سلسلے میں روزنامہ دنیا کے کالم نگار جناب اظہار الحق صاحب نے چکوال کے کسی کسان کا حوالہ دیا ہے جس نے کامیابی کے ساتھ زیتون کی ایک بڑے رقبے پر کاشت کی ہے۔اس طرح کے پاکستانی کاشتکاروں کو ہر ممکن سرکاری تعاون اور وسائل دئیے جائیں گے کہ خوردنی تیل کے حوالے سے پاکستان جلد از جلد خود کفیل ہو سکے۔

٭۔ دیہاتوں میں بائیو گیس پلانٹس کی تنصیب کی جائے گی۔ کسانوں کو مکمل سپورٹ کیا جائے گا تاکہ وہ ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

٭۔ مذکورہ اصلاحات کے تحت سرکاری زمینیں اسلامی معاشی بنیادوں پربے روزگار نوجوان پاکستانیوں کو مفت دی جائیں گی۔

٭۔ زرعی زمینوں پر رہائشی کالو نیا ں بنانے پر مکمل پابندی ہو گی۔ ماضی میں جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے انکا بھرپور محاسبہ کیا جائے گا۔

٭۔ نئے شہر اور رہائشی علاقے وہاں  بنیں گےجو زمینیں نا قابلِ کاشت ہوں گی۔

٭۔تمام کاشتکاروں کو بلاسود قرض لینے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

٭۔ موجودہ پٹواری نظام کی جگہ نیا نظام وضع کیا جائے گا۔ جس میں تمام زمینوں کا ریکارڈ کمپیو ٹرائزڈ ہوگا۔ہر پاکستانی کو اسکی سہولت ہو گی کہ وہ مطلوبہ ریکارڈ  اپنے موبائل سےدیکھ سکے گا۔

٭۔ فرد جمع بندی کے موجودہ کرپٹ نظام کی جگہ صاف شفاف نظام وضع کیا جائے گا۔زمین کی خریدو فروخت کو بھی سادہ اور کرپشن سے پاک کیا جائے گا۔

٭۔ نچلی سطح تک زرعی ماہرین تعینات کیے جائیں گے جو بلا امتیاز کسانوں کو رہنمائی فراہم کریں گے۔

٭۔زرعی زمینیں شراکت کی بنیاد پر نوجوان بےروزگار پاکستانیوں کو دی جا ٰئیں گی۔یعنی ان پر کاشت کاری کے لئے خرچ حکومت فراہم کرے گی اور محنت مذکورہ کاشت کار کرے گا۔کاشت کار ایک خاص مدت کے بعد یہ زمین خرید یا فروخت کر سکے گا۔تفصیلات کا اعلان بعد میں کیا جا ئے گا۔

  ٭۔ زرعی فصلوں کے حصص کی تجارت کا بھی ایک مربوط نظام وضع کیا جائے گا۔تفصیلات کا اعلان بعد میں کیا جا ئے گا۔

٭۔ زرعی علاقے کو انتظامی بنیادوں پر مختلف حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔اور  ان حصوں میں پاکستان زرعی مرکز قائم کیے جائیں  گے۔ جہان اعلی تربیت یافتہ زرعی عملہ تعینات کیا جائے گا۔ ان زرعی مراکز کا کام اس علاقے کے زرعی مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ان  مراکز میں جدید زرعی آلات بھی دستیاب ہوں گے جو کسانوں کو استعمال کے لئے مفت فراہم کئے جائیں گے۔

٭۔مذکورہ پاکستان زرعی مراکز ایک شعبہ حیوانات قائم کیا جائے گا۔جس کا کام مذکورہ علاقے  میں ڈیری اور فشنگ کی ترقی کے لئے کام کرنا ہوگا۔ان مراکز میں جانوروں کے علاج کی تمام سہولتیں میسر ہوں گی۔اس کے علاوہ جانوروں کی موبائل ڈسپنسریوں کا بھی قیام عمل میں لایا جا ئے گا۔

٭ ۔مختصرا ان پاکستان زرعی مراکز کا کام ملک میں اجناس اور دودھ اور گوشت کی پیداوار بڑھانے کے لئے اقدامات کرنا ہوگا۔

٭۔مذکورہ پاکستان زرعی مراکز تمام جدید آلات سے مزین ہوں گے جن میں لیبارٹریاں بھی قائم ہوں گی جہاں پودوں اور مٹی کا تجزیہ کیا جا سکے گا۔

٭۔جنگلات کی ترقی کے لئے بھی ان زرعی مراکز میں شعبہ قائم کیا جائے گا۔جہاں پودے تمام پاکستانیوں کو مفت فراہم کئے جائیں گے۔قومی سطح پر جنگلات کی اہمیت کے لئے مہم چلائی جائے گی۔

٭۔مذکورہ  پاکستان زرعی مراکز کی حدود کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔

٭۔ہر مذکورہ مرکز اپنی روزانہ کی کارکردگی ریجنل دفتر کو اور ریجنل دفتر مرکزی دفتر کو بھجیں گے۔یاد رہے کہ باقی تمام حکومتی اداروں کی طرح یہ دفاتر بھی نیٹ ورکنگ کے ذریعے آپس میں منسلک ہوں گے۔اور ان کی مکمل نگرانی کی جائے گی۔

٭۔زراعت کے جدید آلات کم ترین قیمت پر کسانوں کو فراہم کئے جائیں گے۔

٭۔زراعت سے منسلک شعبہ جات  ڈیری مرغبانی فشنگ  کے لئے بھی ہر طرح سے کسانوں اور اس شعبہ سے وابستہ افراد کو مکمل سہولت اور رہنمائی فراہم کی جائے گی۔

٭ ۔ہر زرعی مرکز اپنی حدود میں کاشت کی جانے والی فصلوں کا اور متوقع پیداوار کا مکمل ڈیٹا سسٹم میں انٹر کرے گا۔اور متوقع اور حاصل شدہ پیداوار کو متواتر اپ ڈیٹ کرے گا۔

٭۔ مرکزی سوفٹ وئیر میں ہر زرعی مرکز کا ڈیٹا اکٹھاکرکے مجموعی ڈیٹا مرتب کیا جائے گا۔اور اسی حساب سے ملکی ضروریات کو پورا کرنے اور اجناس کی عالمی مارکیٹ میں خرید و فروخت کو اس طرح مربوط کیا جائے گا کہ ہر ممکن کسانوں کو اس کا فائدہ پہنچایا جا سکے۔

٭۔ زراعت سے منسلک انڈسٹری کی ترویج کے لئے خصوصی اقدام کیے جایئں گے۔

٭۔ ہر سال نمایاں اوسط پیداوار حاصل کرنے والے کسانوں  انعا مات دئیے جایئں گے تاکہ بحیثیت مجموعی زرعی پیداوار بڑھانے کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔

٭۔ تھر اور چولستان کے علاقے میں پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ اور انہیں بہترین چراگاہیں بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے تاکہ ان علاقوں میں مویشیوں کی پیداوار کو  بڑھایا جا سکے۔

٭۔ زرعی بیٹھک کا فورم متعارف کروایا جائے گا جس سے تمام ملک کے کاشت کار آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اپنی آرا شیئر کر سکیں گے۔مزید تفصیلات پاک آئی ڈی میں فراہم کی جائیں گی۔

٭۔موجودہ معاشی عدم مساوات کا  مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔

٭۔ برآمدات بڑھانے کےلیے ایک مربوط حکمتِ عملی کے تحت کام کیا جائے گا۔اور اس سلسلے میں بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی اپنے ملک کی خدمت کا موقع دیا جائے گا۔

٭۔ برآمد کندگان کو ہر ممکن سہولیات دی جائیں گی اور برآمد کے لیے سامان کے معیار کو ہر ممکن برقرار رکھا جائے گا۔

٭۔ فی الوقت پاکستان سرجیکل سپو رٹس اور ٹیکسٹائل کی برآمدات میں نمایاں ہے۔ ان کی برآمدات کے لئے مزید ممالک سے ہنگامی طور پر رابطے کیے جائیں گے۔

٭۔اور جو ممالک ہماری سرجیکل سپورٹس اور ٹیکسٹا ئل کی مصنوعات لے رہے ہیں انہیں دیگر مصنوعات کے لئے بھی آمادہ کیا جائے گا۔جیسے دستکاری فرنیچرادویات اور جو مصنوعات بھی ممکن ہو سکیں۔

٭۔اس وقت وطنِ عزیز کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک بہت بڑا سورس ہے اسکو مربوط طریقے سے استعمال میں لا کر ان کی صلاحیتوں کو پاکستان کی ترقی کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

٭۔سرجیکل اسپورٹس کے وہ کاریگر جو اپنے یونٹ لگانا چاہتے ہوں گے انہیں بلا سود قرض فراہم کیے جائیں گے۔

٭۔اسٹاک ایکسچینج کو عام پاکستانیوں تک پہنچایا جائے گا۔

٭۔ وہ ڈیمز جن کی تکمیل جلد از جلد ممکن ہے ان پر فوری کام شروع کیا جائے گا۔ اور اس کے لئے فنڈذ کا بھی ایک مربوط پلان ہے۔ مزید تفصیلات کا ذکر نظامِ توانائی میں کیا جائے گا۔

٭۔ زراعت اور برآمد کند گان کوبجلی کی سستی اور مستقل فراہمی یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدام کیے جائیں گے۔

٭۔خواتین کو بھی ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنے کا پورا موقعہ دیا جائے گا۔ دستکاری سنٹرز کے لئے قرض حکومت فراہم کرئے گی۔اور بین القوامی سطح پر دستکاری کی نمائشوں کا اہتمام کیا جائے گا۔

٭۔اسی طرح جو خواتین ڈیری، مرغبانی سے وابستہ ہوں گی انہیں بھی مکمل سپورٹ کیا جائے گا۔

٭۔گھریلو سطح پر سبزیوں کی کاشت کی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

٭حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں۔

دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی

افق سے آفتاب ابھرا ، گیا دورِ گراں خوابی

٭۔انشااللہ بہت جلد پاکستان معا شی طور پر مستحکم ہو گا۔

 

Leave a Reply