٭٭پرائس کنٹرول٭٭

Share on facebook
شیئر کریں
Share on twitter
شیئر کریں
Share on whatsapp
شیئر کریں

٭۔مہنگائی ہمیشہ سے اہم  ترین مسئلہ رہا ہے۔

٭۔اسکا موئثر اور مستقل سدِباب کیا جائے گا۔اور ایک مستقل طریقہ کار وضع کیا جائے گا کہ بنیادی ضرورت کی چیزیں پاکستانیوں کی دسترس سے باہر نہ ہوں۔

٭۔بدقسمتی سے اس مسئلہ کی سب سے بڑی وجہ ذخیرہ اندوزی ہے۔ جس کی اسلام میں کسی صورت اجازت نہیں ہے۔

٭۔ ذخیرہ اندوزی کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑی وجہ تھرڈ پارٹی کا اس تمام عمل کو متاثر کرنا ہے۔

٭۔اس حوالے سے پوری کوشش کی جائے گی کہ ذمہ داران وہ سب کام بذاتِ خود ہدایت کے ساتھ چھوڑ دیں جو کہ انہیں نہیں کرنے چاہئیں۔بصورتِ دیگر اس سلسلے میں دِگہ کا ایسا استعمال کیا جائے گا کہ وہ اپنی مثال آپ ہو گا۔

٭۔ ہمیں ہر طبقہ کی فلاح کو دیکھنا ہے۔کہ کسی کی بھی حق تلفی  نہ ہو اور کسی کو نا جائز فائدہ بھی نا ملے۔

٭۔آٹا  ،چینی ،گھی یا آئل، دودھ،دالیں،چاول اور سبزیات بنیادی اشیا ہیں جو ہر گھر کی ضرورت ہیں۔

٭۔ موجودہ نظام میں حکومتِ پاکستان اربوں روپے سبسڈی کے نام پر فلور ملز ، شوگر ملز اور گھی ملز کو دے رہی ہے جو کرپشن کی نظر ہو رہے ہیں۔اپنی جیب سے نکال کر دوبارہ اپنی جیب میں ہی ڈالے جا رہے ہیں۔

٭۔ اس سلسلے میں تمام متعلقہ شعبوں کو اعتماد میں لے کر اِن چیزوں کی قیمتوں کو مستقل اورانتہائی سختی سے کنٹرول کیا جائے گا۔

٭۔اور یہ قیمت پورے پاکستان میں فکس ہو گی۔

٭۔اس کڑی کا پہلا حصہ کسان ہیں جو سب سے اہم ہیں۔

٭۔ کسانوں کی بنیادی لاگت کو کم کئے بغیر چیزوں کی قیمت کم نہیں ہو سکتی۔

٭۔کھاد، بیج،ڈیزل کسان کی کاشت کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ان چیزوں کی قیمتیں کم کی جایئں گی اور حکومت ان کی فراہمی کے لئے کسانوں کو بلا سود قرض بھی دے گی۔ اور کسانوں کو یہ قرض نقد کی بجائے فصل کی صورت واپس کرنے کی سہولت بھی دی جائے گی۔

٭۔  اس  سارے عمل میں کسانوں کی زمینی حقائق کی بنیاد پر رائے بھی لی جائے گی۔

٭۔کھاد کے کارخانے جنہوں نے پاکستان کا کھایا ہے اور بے انتہا کھایا ہے ۔انہیں اب پاکستان کےلئے آگے بڑھ کر قربانی بھی اتنی بڑی دینی ہو گی۔

٭۔کسانوں کو رعائیتی نرخوں پر ڈیزل فراہم کیا جائے گا۔

٭۔ اعلی اور زیادہ پیداوار کے حامل بیج کسانوں کو فراہم کیے جائیں گے۔

٭۔ کسان کی گندم کی فی من لاگت کو تین سو روپے فی من تک لایا جائے گا۔

٭۔ جیسا کہ نظامِ معیشت میں بتایا گیا ہے کہ فصلوں کے کاشت شدہ رقبے، متوقع پیداوار، اور اصل پیداوار کو ہر پہلو سے مانیٹر کیا جائے گا۔

٭۔حکومت کسان کو فی من چھ سے سات سو کا منافع دے گی۔ یعنی اگر مذکورہ بالا حساب کو دیکھا جائے تو گندم کی سرکاری قیمت نو سو سے ایک ہزار روپے فی من ہو گی۔

٭۔حکومت ملکی ضرورت کے مطابق تمام گندم کاشتکاروں سے خریدے گی۔

٭۔ نجی مارکیٹ بھی کسانوں سے گندم خریدنے میں آزاد ہو گی۔

٭۔ کوئی بھی تاجر مل مالک گندم کی ذخیرہ اندوزی نہیں کر سکے گا۔ اسکی سزا انتہا ئی سخت ہو گی۔ بالعموم  اسلامی نقطہ نظر سے 40 دن سے زیادہ کسی غلے کو روکنا ذخیرہ اندوزی کے زمرے میں آتا ہے۔

٭۔حکومت مل مالکان کی کیپیٹل انویسٹمنٹ اور پسائی اور دیگر کاسٹ کو بھی دیکھے گی اور فلور ملز جو گندم سے دیگر پروڈکٹس جیسے میدہ اور سوجی نکال کر سیل کرتے ہیں ان تمام چیزوں کا جائزہ لے گی۔اور پھر فی من آٹا کی فیکٹری قیمت مقرر کی جائے گی۔

٭۔اسی حساب سے پھر تھوک اور پرچون کا ریٹ مقرر کیا جائے گا۔

٭۔ انشااللہ فی کلو آٹے کی قیمت پرچون میں 35 روپے سے کم ہی رکھی جائے گی۔

٭۔انہی بنیادوں پر چینی چاول کی قیمت بھی فکس کر دی جائے گی۔

٭۔ یاد رہے کہ ہر طبقہ کے لئے مناسب شرح منافع کی رینج رکھی جائے گی  تاکہ ہر کسی کا سرکل مناسب انداز میں حلال طریقے سے چلے۔

٭۔ چینی کی قیمت پرچون میں 50 روپے فی کلو سے اوپر کسی صورت نہیں ہو گی۔

٭۔اسی طرح چاول کی قیمت کو بھی مناسب حد میں لایا جائے گا۔

٭۔گھی اور خوردنی آئیل تقریبا مکمل طور پر درآمد ہو تا ہے۔

٭۔کپاس کی پیداوار کو ہنگامی طور پر بڑھانے کے اقدامات کئے جائیں گے۔ کاٹن سیڈ آئل کو گھی بنانے میں استعمال کیا جائے گا۔

٭۔اللہ پاک نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ ہمارے ملک میں  سویا بین، سورج مکھی کی بھرپور فصل لی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے کسانوں کو اس طرف راغب کیا جائے گا۔ اور انشااللہ جلد ملک کو اس شعبے کی درآمدات سے نجات مل جائے گی۔

٭۔ فی الوقت مذکورہ بالا طریقہ کار کے تحت  آئل اور گھی کی قیمت کو بھی سب شعبوں کے مربوط تعاون سے کم کیا جائے گا۔ اور ٹیکس کم کر کے گھی اور آئل کی قیمت بھی کم کی جائے گی۔

٭۔سبزی میں تھرڈ پارٹی کا بہت رول ہے جسکی وجہ سے کسان کو کچھ نہیں ملتا۔ بعض اوقات تو کسان کی لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔

٭۔ آخری صارف کو سبزی پھر بھی مہنگی ہی ملتی ہے۔

٭۔ہر تحصیل کی سطح تک ہر سبزی منڈی میں پرائس کنٹرول ڈیسک قائم کیا جائے گا۔

٭۔یہ ڈیسک مکمل طور پر  کمپیو ٹرائزڈ ہو گا۔اسکا ڈیٹا بیس ہر دن کی ہر فصل کی ڈیمانڈ اور سپلائی کا ریکارڈ رکھے گا۔

٭۔ ہر روز  منڈی میں آنے والی تمام اجناس کی انٹری ڈیسک میں کروا کر رسید حاصل کرنا  ضروری ہو گا۔اور منڈی میں اجناس لے کر آنے کا ایک فکس ٹائم ہو گا۔ اسکےبعد  اگر انٹری کروانی ہو گی تو اس فصل کی فروخت اس سے اگلے دن ہو گی۔

٭۔ ہر فصل کی لاگت پلس کسان کا مناسب مارجن رکھ کراس فصل کی فئیر پرائس کا تعین کیا جائے گا۔

٭۔ پچھلے دن کی ڈیمانڈ کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیئر پرائس کے ساتھ اپر لمٹ کا بھی تعین کیا جائے گا۔

٭۔ منڈی میں فصل کا کاروبار فیئر پرائس اور اپر لمٹ کے درمیان ہو گا۔

٭۔عام طور پر پورے ملک میں منڈیوں میں کاروبار فجر کے وقت شروع ہو جاتا ہے۔

٭۔ آٹھ بجے تک تمام فروخت مکمل کرنا  ضروری ہو گا۔

٭۔ نو بجے تک تمام ڈیٹا اپ ڈیٹ کر لیا جائے گا ۔اور  سافٹ وئیر سے تمام فروخت کا ریکارڈ سامنے آ جائے گا۔

٭۔ ایک فصل کی جو  سب سے اوپر والی فروخت کی قیمت ہو گی اور جو سب سے کم فروخت کی قیمت ہو گی۔ سستم اسکی اوسط قیمت نکالے گا اور اسکو بینچ مارک بنا کر  ہر فصل کی پرچون پرائس کا تعین سسٹم کر دے گا۔اور یہ پرائس ہر پرچون فروش اور ہر رجسٹرڈ صارف کو واٹس ایپ کر دی جائے گی۔اور منڈی کے ڈسپلے پر بھی اپ ڈیٹ کر دی جائے گی۔

٭۔یاد رہے کہ پرچون کی  پرائس کا تعین کرتے ہوئے پرچون فروش کے دیگر اخراجات جیسے منڈی سے دکان تک مال لے کر جانے کا اوسط کرایہ، دوکان کا کرایہ وغیرہ کو بھی مدِنظر رکھا جائے گا۔ اور پرچون کی قیمت میں یہ چیزیں اور مناسب منافع جمع کر کے پرچون قیمت فکس کی جائے گی۔

٭سارے سسٹم کا مقصد ہرفریق کا کاروباری  تحفظ ہے۔اور اس سافٹ و ئیر کو  سب اسٹیک ہولڈر کی مشاورت سے ترتیب دیا جائے گا۔

٭۔ پرچون فروش اور تمام ریڑھی ، ٹھیلہ والوں کو اس سافٹ وئیر کے ذریعے رجسٹرڈ ہونا لازمی ہو گا۔

٭۔ کیونکہ ریڑھی والے یا    ٹھیلہ فروش کوئی کرایہ نہیں دیتے اسلئے ان کی پرچون قیمت کا تعین کرتے وقت اس بات کو مدِنظر رکھا جائے گا۔اور انکی پرچون قیمت کم لیکن شرحِ منا فع برابر رکھی جائے گی۔

٭۔ کسی بھی قسم کی بد عنوانی کی سزا منڈی میں ہی پھا نسی ہو گی۔

٭۔ کسی بھی قسم کی ذخیرہ اندوزی پر مکمل پابندی ہو گی۔

٭۔ اور بنیادی ضرورت کی چیز دالیں ہیں۔ بد قسمتی سے انکے  دام بڑھنے میں ایک بہت بڑا فیکٹر ذخیرہ اندوزی ہے۔اور کریانہ کے بہت سے ایسے تھوک فروش ہیں جنکے گودام اتنے بڑے بڑے ہیں کہ وہاں ہزاروں بوریاں ذخیرہ کی جاتی ہیں۔اور موجودہ دور میں مصنوعی قلت پیدا کرکے دام بڑھا دیئے جاتے ہیں۔

٭۔ ہماری حتی الوسع کوشش ہو گی کہ جو لوگ بھی ایسا عمل کسی بھی وجہ سے کرتے رہے ہیں وہ خود ہدایت کے رستے پر آ جائیں۔ ورنہ پھر دِگہ انکو سیدھے راستے پر لے آئے گا۔

٭۔دالوں کی طلب و رسد کا مکمل جائزہ لیا جائے گا اور دستیاب اعدادو شمار کی روشنی میں اسکو پرائس کنٹرول سسٹم کے تحت سوفٹ وئیر کے ذریعے سبزی کی طرز پر مکمل کنٹرول کیا جائے گا۔

٭۔ زرعی سوفٹ وئیر کے فعال ہونے کے بعد ملکی پیداوار کا بھی مکمل اندازہ ممکن ہو سکے گا پھر دالوں کی قیمت ایک منا سب حد میں رکھ کر ملکی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی۔

٭۔ دودھ بچوں کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ اس وقت دودھ پرڈیسو سر کا کہنا ہے کہ لاگت بہت بڑھ گئی ہے۔ اس حوالے سے اہم اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ ونڈے اور چارہ کی قیمت کم کی جائے گی۔ بھوسہ کی قیمت کم کی جائے گی۔

٭۔ دودھ کی قیمت کو ہر ممکن کم سے کم کیا جائے گا۔اس سلسلے میں زیادہ دودھ دینے والی گائے کی نسلیں بھی امپورٹ کر کے کسانوں اور مویشی پال کو دی جائیں گی۔

٭۔قصابوں کے حوالے سے کوئی اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں۔ تمام قصابوں کی رجسٹریشن کی جائے گی۔

٭۔مویشی منڈیوں کو باقاعدہ مانیٹر کیا جائے گا۔ اور ان میں بھی جانور کی فئیر پرائس کا سسٹم بتدریج نافذ کیا جائے گا۔

٭۔ برائیلر کے تمام مرغی خانے رجسٹر کئے جائیں گے۔ ہر مرغی خانہ کی پیداوار اور مارکیٹ سپلائی کو مانیٹر کیا جائے گا۔ اور فی کلو گوشت کی لاگت کے ساتھ مرغی خانہ مالکان کی ایک منا سب شرحِ منافع رکھ کر ایکس فارم ریٹ مقرر کیا جائے گا۔

٭۔ چونکہ اس کاروبار کے ساتھ ایسے بہت سے لوگ بھی وابستہ ہیں جو سپلائر کا کام کرتے ہیں۔ انکی بھی رجسٹریشن کی جائے گی۔ انکا مارجن رکھ کر انکے لئے بھی ریٹ مقرر کیا جائے گا۔

٭۔مرغی کی فیڈ کی لاگت بھی کم کی جائے گی۔جب مرغبانی کی لاگت کم ہو گی تو انشااللہ آخری صارف کو گوشت اور انڈے مناسب کنٹرول ریٹ پر ملیں گے۔

٭۔موجودہ پرچی سسٹم جو کہ کرپشن میں لتھڑا ہوا ہے اسے فوری ختم کیا جائے گا۔

٭۔ اسی طرح پرچون فروشوں کا بھی ریٹ انکے جملہ اخراجات اور مناسب شرح منا فع کے ساتھ مقرر کیا جائے گا۔

٭۔  انشااللہ جیسا پہلے بتایا جا چکا کہ ہر کاروبار میں شراکت کار ہر طبقے اور صارف کے مفادات میں ایک متوازن شرح قائم رکھی جائے گی۔

حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں۔

قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے

دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان

 

Leave a Reply