٭۔موجودہ عدالتی نطام کو بتدریج نئے اسلامی نظامِ عدل سے تبدیل کر دیا جائے گا۔
٭۔اسلامی احکامات کے مطابق فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔
٭۔ باقی شعبوں کی طرح عدلیہ میں بھی کسی بھی نوعیت کی بدعنوانی کی سزا موت ہو گی۔
٭۔قاضی کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
٭۔مذکورہ کورٹس دن میں بارہ گھنٹے کام کریں گی۔
٭۔ہر پاکستانی بنا کسی وکیل کے قاضی کو اپنی درخواست دینے اور وہاں پیش ہو کر اپنا مسئلہ بیان کرنےکےلئے مکمل آزاد ہو گا۔
٭۔جھوٹے کیس کرنے کا انتہائی سختی سے تدارک کیا جائے گا۔ جھوٹا کیس ثابت ہونے پر مذکورہ شخص کا ایک کان کاٹ دیا جائے گا۔ نہ صرف اسکا کان کاٹا جائے گا بلکہ اس سلسلے میں اسکے معاونین کے بھی کان کاٹ دیئے جایئں گے۔
٭۔اگر کوئی فریق سمجھے کہ اسکا موقف درست تھا ۔تو اسے اپیل کا حق ہو گا۔
٭۔اپیل کی سماعت اسی شہرمیں تین قاضی کریں گے اور مذکورہ اپیل کنندہ کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع دیا جائے گا۔
٭۔یاد رہے کہ مذکورہ تین قاضیوں کا کام صرف اپیلیں سننااور ان کا فوری فیصلہ کرنا ہو گا۔
٭۔اگر کوئی فریق اپیل میں بھی جھوٹا ثابت ہو گیا تو اسکو جو سزا قاضی نے دی ہو گی اسکے ساتھ ساتھ اسکے دونوں کان کاٹ دئیے جائیں گے۔
٭۔”سٹے کلچر” مکمل ختم کر دیا جائے گا۔
٭۔ کسی ایسے تنازع میں جس میں نقصِ امن کا خطرہ ہو گا ۔ مزکورہ قاضی خود یا اپنے کسی نمائندے کو فوری جگہِ تنازع پر بھیج کر فوری فیصلہ کرے گا۔
٭۔جن مجرمان کو کوڑوں کی سزا ہو گی اس پر فی الفور جلادوں کے ذریعے عمل درآمد کروایا جائے گا۔اور شہر کے چوک میں کوڑے مارے جائیں گے۔
٭۔تمام پولیس اسٹیشن قاضی کے ماتحت اور فوری احکامات ماننے کے پابند ہوں گے۔
٭۔ہر ضلع کے چیف قاضی کے پاس نیٹ ورکنگ کے ذریعے تمام کیسوں کا ریکارڈ ہو گا اور جو روزانہ کی بنیاد پر کاروائی ہو گی اسکا بھی ریکارڈ ہو گا۔وہ یہ ریکارڈ متعلقہ ڈویژنل چیف قاضی کو اپنے کمنٹس کے ساتھ روزانہ فارورڈ کرے گا۔
٭۔اسی طرح ڈویژنل قاضی اپنے متعلقہ ڈویژن کا ریکارڈ اسلام آباد “امینِ عدل” کو جمع کروائیں گے۔اور قاضی القضا کو بھی یہ تمام ریکارڈ جائے گا۔
٭۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا کہ باقی سرکاری محکموں کی طرح عدلیہ میں بھی کسی قسم کی رشوت ستانی بد عنوانی اقربا پروری کی سزا سرِعام موت ہو گی۔
٭۔ موجودہ ہائیکورٹ سپریم کورٹ کلچر بتدریج ختم کر دیا جائے گا۔
٭ ۔فی الوقت موجودہ ہا ئیکورٹ اور سپریم کورٹ کے کام کے اوقات بڑھا دئیے جائیں گے تا کہ وہ جو زیرِ التوا کیس ہیں وہ تمام کے تمام ایک سال میں نمٹا دیئے جائیں۔
٭۔اس دوران کوئی نیا کیس موجودہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ میں دائر نہیں کیا جائے گا۔
٭۔جیسا کہ نطامِ تعلیم میں بتایا گیا ہے کہ جو بچے قاضی کی فیلڈ کے لئے سلیکٹ ہوں گے انکی ایسی تربیت کی جائے گی کہ وہ اسلامی عدل و انصاف کے زریں اصولوں کے مطابق فیصلہ دیں گے۔ اورانکا آنا انشااللہ ایک مکمل اسلامی فلاحی ریاست کے حوالے ایک بڑا سنگِ میل ہو گا۔
٭۔اسلام آباد میں قاضی القضا کا علیحدہ شعبہ قائم کیا جائے گاجو دس قابل ترین اور جہاندیدہ قاضی صاحبان پر مشتمل ہو گا۔ جس کا کام کسی بھی قاضی کے متعلق کسی شکایت پر فوری ایکشن لینا ہو گا۔ اور اگر کوئی بھی قاضی کسی قسم کی بد عنوانی میں ملوث پایا گیا تو اسکی سزا سرِعام پھا نسی ہو گی۔
٭۔ مستقبل قریب میں قاضی القضا آئین اور قانون کی تشریح اور کسی حکومتی حوالے سے بھی اپیلیں سنا کریں گے۔
٭۔نئے نظام کی شروعات تک موجودہ عدالتوں کا وقت بارہ گھنٹے کر دیا جائے گا تاکہ تمام زیرِالتوا مقدمات کو نمٹایا جا سکے۔
٭-بہت سی فرسودہ اور قومی خزانے پر بوجھ چیزوں کا فی الفور خاتمہ کر دیا جائے گا۔ جیسے کہ ملزمان کو وین میں بھر کے عدالت پیش کرنا ۔ بخشی خانہ کا نظام۔
٭۔ملزمان کی عدالت پیشی ویڈیو لنک کے ذریعے کی جائے گی۔
٭۔جھوٹا حلف نامہ دینا باقاعدہ جرم تصور ہو گا۔اور اسکی سزا ایک کان کاٹنا ہو گی۔ یہ بات فی الفور نافذ العمل ہو گی۔
٭۔ قاضی القضا کو موجودہ کلچر کے حساب سے سپریم کورٹ کے اختیا رات حاصل ہوں گے۔ان میں تعیناتی “پیمانہ خدمت” کی رپورٹس سے منسلک ہو گی۔
٭۔ نئے نظام کے نفاذ تک موجودہ عدالتی سسٹم میں نوٹس اخبار اشتہار اور چسپاندگی جیسے فرسودہ طریقہ کار کو فی الفور ختم کر دیا جائے گا۔ موبائل فون کے ذریعے فریقین کو بلایا جائے گا۔
٭۔ہمیں اس بات کا پورا ادراک ہے کہ بد قسمتی سے موجودہ عدالتی نظام میں کرپشن بہت عام ہے۔ ریڈر بھی پانچ دس ہزار کی دیہاڑی بنا کر جاتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ نئے نظام کے اطلاق تک موجودہ نظام سے حتی الوسع بہتری لوگوں تک پہنچائی جائے گی۔اور اس سلسلے میں انتہا ئی سختی سے کا م لیا جائے گا۔
٭۔حضرتِ اقبال فرماتے ہیں
مشرق سے ہو بیزار، نہ مغرب سے حزر کر
فظرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر