٭۔ نہیں بھائی یہ میرا کام نہیں۔ میں کیا کر سکتا ہوں بھائی۔
٭۔میں تو ایک ڈاکٹر ہوں۔میں ایک انجینئر ہوں۔میں تو ایک صحافی اینکر پرسن ہوں۔میں استاد ہوں۔میں تو دوکاندار ہوں۔میں تو ایک عورت ہوں۔میں تو طالبعلم ہوں۔یہ میرا کام نہیں ہے بھائی۔
٭۔میں کیا کر سکتا ہوں کہ نظام ٹھیک ہو اور پاکستان 75 سال کی ذلت و رسوائی کی دلدل سے نکل سکے۔نہیں بھائی نہیں یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ملک کو ٹھیک کریں۔یہ سیاستدانوں کا کام ہے۔یا دیگر اداروں کا کام ہے وہ ٹھیک کریں ملک کو معاملات کو بھائی میرے بس میں کچھ نہیں۔
٭۔یہ وہ بات ہے جو بدقسمتی سے مجھےآپ کو ہر طرف سننے کو ملتی ہے۔
٭۔میری آپکی یا کہیں ہم سب کی 75 سال یہی سوچ رہی ہے کہ بھائی ہم کچھ نہیں کر سکتے اور یہ ہمارا کام نہیں ہے نتیجہ کے طورپر وطنِ عزیز پاکستان اس حالت کو پہنچ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭۔فرض کریں آپ ایک ڈاکٹر ہیں انجینئر ہیں ایک صحافی اینکر پرسن ہیں ایک استاد ہیں دوکاندار ہیں مزدور ہیں کسان ہیں یا طالبعلم ہیں سرکاری یا نجی ملازم ہیں۔یا آپ ایک خاتون ہیں۔
٭۔آپ ایک گھر میں اپنی فیملی کے ساتھ سکون سےرہ رہے ہیں۔
٭۔ ایک دن اچانک آپکے گھر میں آگ لگ جاتی ہے۔
٭۔آپ تو ایک ڈاکٹر یا صحافی وکیل انجینئر دوکانداراینکر پرسن یا خاتون ہیں۔ آپ آگ بجھانے والے نہیں ہیں۔اپنی موجودہ سوچ کے تناظر میں تو ہمیں ریسکیو کو کال کرکے سکون سے بیٹھ جانا چاہیے کہ آگ بجھانا انکا کام ہے وہ آئیں گے تو آگ بجھائیں گے۔آگ بجھانا آپکا کام تو نہیں ہے۔
٭۔لیکن عملی طور پرتو ایسا کبھی نہیں ہوتا۔جس گھر میں آگ لگی ہو وہاں کا ڈاکٹر انجینئر اینکرپرسن دوکاندار مرد و عورت بوڑھا جوان سب آگ بجھانے کے لئے دیوانہ وار کوششیں کرتے ہیں۔
٭اور اکژ اوقات ریسکیو کے آنے سے پہلے آگ بجھا چکے ہوتے ہیں۔
٭٭آپکے میرے ہم سب کے گھر “پاکستان” میں بھی 75 سال سےآگ لگی ہوئی ہے۔اور اب یہ آگ اپنی انتہائی آخری خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔٭٭
٭۔ظلم جبر، نا انصافی، عدم مساوات،غربت،جاہلیت،بےروزگاری،مہنگائی،عدم برداشت،کرپشن،رشوت ، سفارش اورلاقانونیت کی آگ۔لسانی، گروہی، صوبائی عصبیت کی آگ۔
٭۔اپنی ایمانداری سے فیصلہ کریں کہ کیا یہ ہمارا فرضِ عین نہیں ہے کہ ہم اپنے “گھر پاکستان” کو اس آگ میں جلنے سے بچانے کے لئے اب اٹھ کھڑے ہوں۔اوراسی راہ پر چلیں جس پر چل کر ہمارے بزرگوں نے ہمیں آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا۔
٭۔آیئں سب مل کرصرف پاکستانی بن کر اس “آگ” کو بجھانے کے لئے اپنا اپنا کردارپوری ایمانداری محنت اور بنا کسی ڈر اور خوف کے ادا کریں جو ہمارا فرضِ عین ہے۔
٭۔یہ ہمارا گھر ہے ہمیں ہی اسکے لئے آگے آنا ہےاوراس آگ کوہر صورت بجھانا ہے۔ہمارا گھر ہے تو ہم سب ہیں۔
٭۔ہم انشااللہ 1947 کے اسی جذبے حوصلے ہمت کے ساتھ عملی کوشش کریں گے تو انشااللہ ، اللہ پاک سرکارﷺ کے صدقے ہمیں اس مقدس راہ میں ضرور سرخرو کرے گا۔جیسے ہمارے بزرگوں نے سرخرو ہو کر ہمیں اپنا ” گھر پاکستان” دیا۔
حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
کہ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولؑ ہاشمی
٭۔ہمارا گھر ہمارا وطن ہمیں پکار رہا ہے اور یاد رکھیں یہ آگ ہمیں ہی بجھانی ہے اس لیے کہ یہ ہمارا گھر ہے۔انکا گھر نہیں ہے جنہوں نے75سال اسکو آگ لگائی ہے۔اور انشااللہ ہم یہ آگ ہرصورت بجھائیں گے۔اور اس مقصدِ عظیم میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔اگر جان کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا توانشااللہ قائدؒو اقبالؒ کے قدموں کی خاک یہ گناہ گار اپنی جان اپنے “گھر پاکستان” پر سب سے پہلے قربان کرئے گا۔
٭۔آئیں سب مل کر اپنے “گھر پاکستان”کوحقیقی پاکستان بنانے کے لئےایمان اتحاد اور تنظیم کے زریں اصولوں پر عمل پیرا ہوں۔ بے شک قائدِ اعطمؒ یہ رہنما اصول ہماری قومی زندگی کا اثاثہ ہیں اور یقینِ کامل رکھیں کہ اللہ پاک نے اپنی رحمت سے سرکارﷺ کے صدقے جوبصیرت قومِ رسولِؑ ہا شمی کو عطا فرمائی ہےوہ کسی کو عطا نہیں فرمائی۔ اور انشاللہ اسی بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے سرکارﷺ کی نظرِ کرم کے صدقے ہم اپنے “گھر پاکستان” میں لگی اس آگ کونہ صرف ختم کریں گے بلکہ انشاللہ اسے ایک مثالی اسلامی فلاحی مملکت بھی بنائیں گے۔
اور دنیا دیکھ لے کہ
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں۔