٭٭صرف بیس منٹ٭٭

Share on facebook
شیئر کریں
Share on twitter
شیئر کریں
Share on whatsapp
شیئر کریں

آپ میں ہم سب اس دھرتی کے باسی ہیں۔پاکستان جہاں اوسط عمر 50 سال رہ گئی ہے۔اس 50 سال اگر منٹ بنائیں توتقریبا2 کروڑ 63 لاکھ منٹ بنتے ہیں۔

آپ چاہے خاتون ہیں یا مرد۔مجھے آپکے صرف بیس منٹ چاہیئں۔صرف بیس منٹ ۔کہ اس گذارش کو دل سے پڑھیں اورصرف بیس منٹ دنیا کی ہر چیز کو بھول کر جو لکھا ہے اسے سوچیں۔سوچیں۔۔۔۔۔سوچیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صرف بیس منٹ کےلئے سوچیں کہ آپ نے بیس منٹ بعد مر جانا ہے۔

اب سرکارﷺ کا فرمان ذہن میں لائیں۔ فرمایا۔

“تم میں سے ہر کوئی راعی ہے اور اس سے اسکی رعیت بارے سوال ہو گا”

اب سوچیں کہ میں نے گزری زندگی میں کیا کیا۔

غلط اور درست کا مجھے پتا تھا پر میں چپ رہا۔ برائی اور اچھائی کا مجھے ادراک تھا مگر میں چپ رہا۔اپنے سامنے ظلم جبر ناانصافی عدم مساوات کو دیکھتا رہا ۔اور دل میں خیال آتا رہا کہ ہمیں کیا۔

آزادی جیسی انمول نعمت کا مجھے پتا تھا مگر میں اسکی قدر کرنے سے عاری رہا۔

اپنے پاکستان کو 75 سال سے لٹتا تباہ ہوتا دیکھ کر بھی میں نے کبھی نہیں سوچا کہ مجھے اسکے لئے عملی طور پر کچھ کرنا چاہیے۔ میں یہ سوچ کر چپ رہا کہ جو بھی ہے میرا گھر تو محفوظ ہے۔

ظلم و جبر نا ا نصافی زیادتیوں کی انتہا ہو گئی مگر میں چپ رہا پر سکون رہا کہ مجھ پر یا میری اولاد پر تو یہ سب کچھ نہیں ہو رہا نا ۔مجھے کیا۔ جو ہوتا ہے ہو۔

سرکارﷺ کے حکم کو بھلا دیا کہ

تم میں کوئی برائی کو دیکھے تو ہاتھ سے اسے روکےاگر اسکی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے اگر اسکی طاقت نہ رکھتاہو تو دل سے برا جانے اور اسکے خاتمے کا سوچے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔

میں ایمان کے کمزور ترین درجے پہ بھی نہ رہاکہ میں خودغرض ہو گیا کہ میں نے برائی کو برا سمجھنا اور اسکے تدارک کا سوچنا تک چھوڑ دیا کہ بس ٹھیک ہے یار جو ہوتا ہونے دو ہمیں کیا۔یار دنیاداری ہے کیا کریں سب چلانا پڑتا ہے۔

خود غرضی کی انتہا کر دی میں نے۔

حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں۔۔۔۔

خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے

میں اسکا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

میں کبھی نہ سوچا کہ مجھ پر اللہ کے بندوں کے کیا حقوق ہیں۔ میں خود غرضی کی انتہا پر رہا کہ بس پیسہ ہو اور ہو اور ہوپلاٹ ہو دکان ہو سونا ہو ۔ چاہے  یہ سب حاصل کرنے کے لئے اپنے ہم وطنوں ،مسلمان بھائیوں اور اس وطن کا کچھ نہ رہے۔

 بیس منٹ بعد میں اس دنیا میں نہیں رہوں گا اور جب میرے دنیاوی رشتے مجھے قبر میں بے یارومددگار چھوڑ کر چلے جائیں گےجن کی وجہ سے میں نے کبھی برائی کو روکنے کا نہ سوچا کہ میری فیملی کو کوئی مسئلہ نہ ہو۔میرے بچوں کو کچھ نہ ہو جائے۔میرے  جائز و نا جائز مال کو کچھ نہ ہو جائے۔

وہ فیملی وہ اولاد تومجھے قبر میں ڈالنے کے بعد دس منٹ بھی نہ رکے۔ جن کے تحفظ کے ڈر سے میں نے کبھی برائی کو روکنے کا نہ سوچا۔اگر خیال بھی آیا تو اسے بھی دل سے نکال دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب میں قبر میں اکیلا بے یارو مددگار پڑا ہوں۔ میں کس منہ سے سرکارﷺ کی شفاعت کی توقع کروں۔جب میں نے سرکارﷺ کے ارشادات پہ ہی عمل نہ کیا۔میں قبر میں پڑا سوچ رہا ہوں کہ میں نے کتنا گھاٹے کا سودا کیا۔کاش مجھے ایک دفعہ پھر دنیا میں جانے کا موقعہ مل جائے لیکن وہ کاش کاش ہی رہناہے۔

مجھے ان بیس منٹ میں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ مجھے قبر میں بے یارومددگار سرکارﷺ کی شفاعت سے محروم ہو کر پچھتانا ہےیا جو مہلت اللہ پاک نے بقیہ زندگی کی صورت مجھے دی ہے اس میں مجھے اپنےآپ کو سرکار ﷺ کا سچا غلام بناتے ہوئے سرکار ﷺ کے احکامات پر مکمل عمل کرکے اپنے آپکوسرخرو کرنا ہے ۔ حضرتِ علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

محمدؐ کی غلامی دینِ حق کی شرطِ اول ہے

اگر اسی میں ہو خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

 فرمانِ سرکار ﷺ ہے کہ

بہترین جہاد ظالم حکمران کے آگے کلمہ حق کہنا ہے۔

ایک اور فرمانِ سرکار ﷺ ہے کہ

تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔

ایک اور فرمانَ سرکارﷺ ہے کہ

مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔

میں قبرکی تاریکی میں پڑا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ کاش کوئی مجھے ایک دفعہ ہی احساس دلا دیتا تو میں سرکارﷺ کا سچا غلام بنتا آپؑ کے احکامات پرمکمل عمل کرتااور آج میں پچھتاوے سے بچ جاتا۔یہ “بیس منٹ” یہی احساس دلانے کی کوشش ہے۔ 

حضرتِ اقبال فرماتے ہیں۔

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا الله

ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو اس “بیس منٹ”کے فریم میں رکھ کے دیکھے۔ کیا ہمارے پاس قبر میں صرف پچھتاوا ہی پچھتاوا نہیں ہو گا ؟

ایمانداری سے تجزیہ کریں توبے شک ہم سب پچھتاوا کی کیٹگری میں آتے ہیں ۔

استاد، دانشور، میڈیا پرسنز، اس ملک کا وہ طبقہ ہے جس پر سب سے زیادہ ذمےداری عائد ہوتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ٹی وی،اخبار ،سوشل میڈیا پروطنِ عزیز کے حا لات کی نوحہ گری کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا کام کر دیا۔ لمبی تنخواہیں مراعات، یو ٹیوب کی کمائی الگ۔یہ میرے تمام محترم اپنے آپ کو “بیس منٹ” کے فریم میں رکھ کر دیکھ لیں۔تو یقینا” انہیں احساس ہو گا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انہیں پاکستان کےلئے عملی طور پر بہت کچھ کرنا چاہیے۔

؂ شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات۔

ہر پاکستانی اپنے آپ کوصرف بطور پاکستانی بیس منٹ کےلئے سوچے تو ہر کسی کے دل سے یہی نکلے گا کہ ہم 75 سال غفلت اور خودغرضی میں پڑے رہے۔ ہمیں احساس ہی نہیں دلایا گیا کہ ہم کتنا گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں۔

لیکن اب ہمیں احساس ہو گیا ہے کہ ہمیں اسی راہ پہ واپس آنا ہے جس راہ پر چل کر ہمارےبزرگوں نے یہ انمول وطنِ عزیز پاکستان حاصل کیا تھا۔1947 کے پلیٹ فارم سے ہم انشااللہ دوبارہ اسی راہ پر چلیں گے جو ہماری حقیقی کامیابی کی راہ ہے۔اور پاکستان کو وہ پاکستان بنائیں گے جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا اور جس کے حصول کےلئے قائدِاعظمؒ کی قیادت میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی دی گئی۔یعنی اسلامی فلاحی ریاست۔

اس راہ کو حضرتِ علامہ اقبال نے یوں بیان فرمایا۔

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمدؑ سے اجالا کر دے

Leave a Reply